بھارت میںہر 5.73 لاکھ مسلمانوں میں صرف ایک آئی اے ایس۔آئی پی ایس افسرہی موجود ہے۔گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں میں مسلمانوں کی سیول سرویسز میں موجودگی کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی، بس کبھی کبھار ہی کچھ روشن مواقع نظر آئے ہیں۔
کلارین نامی ویب سائٹ نے ایک نئی کتاب ’’مسلمانانِ ہند ۔جعلی بیانیے اور زمینی حقائق ‘‘کےحوالہ سے انکشاف کیا کہ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں میں سیول سرویس امتحانات میں مسلمانوں کی شمولیت اور ان کی کامیابی کی شرح ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہی۔
دنیا کےسب سے زیادہ آبادی والے اور سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں 24 سیول سرویسز ہیں جہاں ہر سال یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کے زیرِ اہتمام سی ایس ای کے ذریعے نشستیں پُر کی جاتی ہیں۔ یہ امتحان تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے ۔۔۔پریلمز، مینس، اور پرسنالٹی ٹسٹ (انٹرویو)۔ منتخب امیدواروں کو مختلف سرویسز میں تعینات کیا جاتا ہے جیسے کہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS)، انڈین پولیس سروس (IPS)، اور انڈین فارسٹ سروس (IFS) وغیرہ۔
سی ایس ای پریلمز وہ ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے جہاں زیادہ تر امیدوار چھانٹی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تمام امیدواروں میں سے تقریباً 1.12 فیصد ہی مینز کے لیے اہل قرار پاتے ہیں۔ اس کے بعد حتمی انتخاب کے لیے پرسنل انٹرویوز ہوتے ہیں۔ 2023 کے پریلمز میں تقریباً 13 لاکھ امیدواروں نے 1,255 آسامیوں کے لیے درخواست دی تھی۔ اس امتحان میں صرف 5-6 لاکھ امیدوار شامل ہوئے۔ ان میں سے 14,624 نے مینز کے لیے کوالیفائی کیا جبکہ اس کے نتائج کی بنیاد پر 2,916 امیدوار پرسنلٹی ٹسٹ کے لیے منتخب کیے گئے۔ تمام سرویسز کے لیے تقریباً 1,000 آسامیوں کی تعداد میں 49.5 فیصد ریزرویشن شامل ہے۔
ہر سال 10 لاکھ سے زائد امیدوار سی ایس ای پریلمز میں شامل ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 1 فیصد یا 10,000مینسکے لیے اہل قرار پاتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 3,000 امیدوار انٹرویوز کے لیے بلائے جاتے ہیں اور منتخب ہوتے ہیں۔ 2014 واحد سال تھا جب نشستوں کی تعداد 1,364 تک بڑھی۔ سی ایس ای کا اصل مقصد یہ ہے کہ تمام سماجی طبقات سے امیدوار، بشمول مسلمانوں کو موقع ملے، مگر اس میں کامیابی کی شرح محدود رہی ہے۔
’’اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘‘نے 2014 میں کہا کہ مسلمانوں میں سیول سرویسز میں نمائندگی کی کمی پر تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ کمیٹی نے مسلمانوں کی کم شرکت کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیا نہ کہ ان کی کامیابی کی کم شرح کو۔
سی ایس ای، جس کی بنیاد 1926 میں برطانوی سامراج کے دوران رکھی گئی، دنیا کے سب سے معتبر روزگار سے وابستہ مسابقتی امتحانات میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر یہ امتحان لندن میں منعقد ہوتے تھے اور 1869 تک صرف 16 بھارتیوں نے اس میں حصہ لیا جن میں سے ایک ہی کامیاب ہوا۔ 1914 میں، ICS میں صرف پانچ فیصد افسران بھارتیتھے۔
1947 میں آزادی کے وقت 980 آئی سی ایس افسران میں سے 101 مسلمان، 25 بھارتی مسیحی، 13 پارسی، اور 10 سکھ تھے۔ آزادی کے بعدآئی سی ایس کو انڈین اڈمنسٹریٹو سرویس میں تبدیل کر دیا گیا۔
یو پی ایس سیکے کل 32 چیئرمین میں سے تین مسلمان رہے ہیں۔ 2006 میں سچر کمیٹی نے سیول سرویسز میں مسلمانوں کی 3.2 فیصد نمائندگی کی تصدیق کی۔
2009 میں 791 کامیاب امیدواروں میں سے 31 مسلمان تھے۔ 2010 میں 875 میں سے 21 مسلمان کامیاب ہوئے جن میں ڈاکٹر شاہ فیصل شامل تھے۔ 2011 میں 998 کامیاب امیدواروں میں 31 مسلمان شامل تھے۔
2015 میں کل 1,236 کامیاب امیدواروں میں سے 36 مسلمان تھے جن میں کشمیری مسلمان اطہر عامر اول شفیع خان نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ 2017 میں 990 امیدواروں میں سے 52 مسلمان کامیاب ہوئے۔ اس وقت، مسلمانوں کی اوسط انٹرویو میں 13 اضافی نمبر تھے۔ 2021 میں کامیاب امیدواروں کی تعداد 22 رہ گئی، جس میں کسی نے بھی ابتدائی 100 میں جگہ نہیں بنائی۔
1958 سے 2021 تک، 20,720 کامیاب امیدواروں میں سے 686 مسلمان تھے۔ بعض برسوں میں ایک بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہیں ہوا، جیسے 1971، 1972، 1975، اور 1976 میں۔ 1973، 1981، 1983، اور 1998 میں صرف ایک مسلمان امیدوار کامیاب ہو سکا۔ 1972 سے 2023 تک، سی ایس ای کے 54 ٹاپرز میں صرف تین مسلمان شامل تھے۔ ان میں پہلا مسلمان جاوید عثمانی تھا، جو 1978 میں اتر پردیش سے تھا۔ دوسرا ٹاپر 1987 میں بہار سے عامر سبحانی تھا، جبکہ 2009 میں جموں و کشمیر سے شاہ فیصل تیسرے مسلمان ٹاپر بنا۔
2023 میں سی ایس ای کے ذریعے 12.5 لاکھ درخواست گزاروں نے 1,255 آسامیوں کے لیے مقابلہ کیا۔ 1951 سے 2020 کے درمیان، 11,569 آئی اے ایس افسران میں سے 411 مسلمان تھے۔ انڈین پولیس سرویسا(ٓئی پی ایس) میں جو 1948 میں شروع ہوئی، 4,344 میں سے 151 مسلمان تھے۔ انڈین فاریسٹ سرویس(آئی ایف ایس( میںجو 1966 میں قائم کی گئی اس میں 2,151 میں سے 35 مسلمان شامل تھے۔ 2023 میں تینوں سرویسز میں کل 11,959 افسران میں سے 366 مسلمان تھے۔