Embed HTML not available.

وقف کمیٹی کے اجلاس اختلافی دعوؤں کامیدان جنگ بن گئے

وقف کمیٹی کے اجلاس میں صدرمجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی نے دہلی میں 172 وقف املاک کی فہرست پیش کی، جو ان کے مطابق غیر قانونی طور پر اے ایس آئی کے قبضے میں ہیں۔

حیدرآباد۔8؍ستمبر(نیوز ڈین) پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں وقف (ترمیمی)بل پراجلاس اختلافی دعووں کی وجہ سے ایک جنگی میدان بن گئے ہیں کیونکہ کئی سرکاری اداروں نے ملک بھر کےوقف بورڈز الزام عائد کیا کہ وہ ان کے زیر قبضہ جائیدادوں پراپنی ملکیت کے دعوئے پیش کررہے ہیں جس کے جواب میں سخت جوابی دعوے سامنے آئے ہیں۔کمیٹی کے اپوزیشن ارکان کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں وقف املاک درحقیقت سرکاری اداروں، بشمول آثار قدیمہ سروے آف انڈیا(ASI)،کے غیر قانونی قبضے میں ہیں۔ذرائع کے مطابقاے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور کمیٹی میں سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے اپوزیشن رہنما، بیرسٹراسد الدین اویسی نے دہلی میں 172 وقف املاک کی فہرست پیش کی جو ان کے بقول غیر قانونی طور پر اے ایس آئی کے قبضے میں ہیں۔اویسی کی یہ پیشکش کمیٹی کے چیئرپرسن اور بی جے پی کے رکن جگدمبیکا پال کو اس وقت کی گئی جب ملک کے سرکردہ آثار قدیمہ کے ادارے نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے 120 سے زائد محفوظ شدہ آثارپر مختلف وقف بورڈز کی جانب سےاپنی ملکیت ہونےکےدعوے کیے جا رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اے ایس آئی نے ان پر غیر قانونی تعمیرات کا الزام بھی لگایا۔
شہری امور، سڑک و ٹرانسپورٹ کی وزارتوں اور ریلوے بورڈ نے بھی وقف بورڈز پر اسی طرح کے الزامات عائد کیے ہیں اور قانون میں تجویز کردہ ترامیم کی حمایت کی ہے۔ اے ایس آئی نے کمیٹی کی گزشتہ میٹنگمیں جو جمعہ(6 ستمبر)کو منعقد ہوئی اپنے 53 محفوظ شدہ آثار کی فہرست پیش کی، جنہیں مختلف ریاستی وقف بورڈز نے دہائیوں بعد اپنی جائیداد قرار دیا۔
کمیٹی نے تمام فریقینکے بیانات سننے اور اپنی سفارشات کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کی مہلتتک مکمل کرنے کی کوشش میں باقاعدگی سے دن بھر کی میٹنگز منعقد کی ہیں، تاہم وہ لوگ جو بل کی موجودہ شکل کے خلاف ہیں، ان کے بیانات میں چند اعتراضات مشترک نظر آ رہے ہیں۔
ترمیمات، جو موجودہ’بہ اعتبار استعمال وقف‘ اصول کو ختم کر رہی ہیں، جس کے تحت وقف بورڈز کسی جائیدادپرمذہبی استعمال کی تاریخی بنیاد پر اپنا دعویٰ کر سکتے تھے مگر ان ترامیم میں ضلع کلکٹرز کو متنازعہ جائیداد کے بارے میںفیصلہ کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے، اور بورڈز میں غیر مسلموں کی تقرری کی تجویزپر بھی کمیٹی میں اپوزیشن ارکانکی جانب سے شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو منعقدہ اجلاس میں اے ایس آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ وقف بورڈ کسی بھی جائیداد کو اپنی قرار دے سکتا ہے، جس پر اپوزیشن ارکان، جیسے کانگریس کے سید نصیر حسین اوربیرسٹراسد الدین اویسی، نے اسے’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کا ادراک قرار دیتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں