بستر میں سال میں ایک مرتبہ مقدس عدالت منعقد ہوتی ہے جہاں چرند اور پرند گواہ ہوتے ہیں
بھگوانوں کا نہ صرف مواخذہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کو سزا بھی سنائی جاتی ہے
حیدرآباد۔8 /ستمبر (نیوز ڈین)چھتیس گڑھ میں قبائیلیوں کے غلبہ والا بستر خطہ جو ماؤ نوازوں کی جانب سے منعقد کی جانے والی غیر مجاز عوامی عدالتوں کے باعث اکثر سرخیوں میں رہتا ہے‘ وہ ایک اور نوعیت کی عدالت رکھتا ہے جو سال میں ایک مرتبہ اپنا
اجلاس منعقد کرتی ہے جس کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں سے زمینی خدا ؤں کو بھی مامون حاصل نہیں۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ عدالت جو ایک مندر میں لگتی ہے‘ انسانوں کے بنائے ہوئے خداؤں کو قصور وار گردانتی ہے اور انہیں سزائیں بھی سناتی ہے۔بستر خطہ جہاں کی آبادی کا 70 فیصد قبائیلی ہیں تصوراتی اساطیر اور لوک روایتوں کا شاہد رہا ہے۔ گونڈ‘ ماریا‘ بھترا‘ حلبہ اور دھوروا کئی روایتوں پر کاربند ہیں جن کے بارے میں اس خطہ کے باہر کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا۔ یہ روایات بستر کی ثقافتی ورثہ کا کلیدی حصہ ہیں۔ ان ہی روایات میں ایک روایت ’جن عدالت‘ (عوامی عدالت) ہے جس کا ایک اجلاس مانسون کے دوران ہر سال بھاڈو جاترا کے دوران بھنگارم دیوی مندر کے احاطہ میں منعقد ہوتا ہے۔
سہ روزہ تہوار کے دوران مندر کی دیوی بھنگارم دیوی سماعتوں کی صدارت کرتی ہیں جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے دیوتاؤں پر فرد جرم عائد کیا جاتا ہے جن میں جانور اور پرند اور اکثر مرغیاں شاہد بنائی جاتی ہیں۔ دیہاتی شکایت گزار ہوتے ہیں۔ یہ شکایات فصلوں کی ناکامی سے لے کر بیماری مرگ سے متعلق ہوتی ہیں حتیٰ کہ ان شکایات میں کچھ بھی شامل ہوتا ہے جن میں دعاؤں کامقبول نہ ہونابھی شامل ہے۔ اس عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں بہت سخت ہوتی ہیں۔ قصور وار پائے جانے والا ایک دیوتا جلا وطن کردیا جاتا ہے اور اس کی مورتی جو عموماً چوبی ہوتی ہے‘مندر میں اپنا مقام کھودیتا ہے اور مندر کے احاطہ سے نکال دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار یہ سزا تاحیات ہوتی ہیں یا اس وقت تک ان پر اطلاق ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ اپنی روش بدل دیں۔ خداؤں کی شنوائی کا نظارہ کرنے تقریباً240 دیہاتوں کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ ان کے لئے طعام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بھنگارم دیوی مندر میں مقدمات کی سماعت صرف سزاء کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ اصلاح کے لئے بھی ہوتی ہیں۔ خداؤں کو تلافی کرنے کا بھی موقع دیا جاتا ہے۔اگر وہ اپنا رویہ بدل لیتے ہیں اور لوگوں کی دعاؤں کو قبول کرنے لگتے ہیں تووہ مندر میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پالیتے ہیں۔
تاریخ داں گھنشیام سنگھ ناگ کا کہنا ہے”یہ رسم خداؤں اور انسانوں کے مابین رشتوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ خدائیں‘ لوگوں کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کو نوازتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ پوجے جاتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے تو مواخدہ خداؤں کا بھی ہوگا۔“اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ضرورت کے وقت ان کے خدا ان کی دعائیں قبول نہیں کرتے ہیں تو وہ مقدس عدالت سے رجوع ہوتے ہیں۔ اس میں وباؤں کو پھوٹ پڑنا‘ آفات سماوی یا فصل کی خرابی شامل ہے‘ تب خداؤں کو طلب کیا جاتا ہے اور سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں۔ اگر خدائیں اپنی روش بدل لیتے ہیں تو ان کی’مندر بے دخلی‘ ختم کرتے ہوئے ان کا دوبارہ استقبال کیا جاتا ہے۔ بھنگارم مندر کمیٹی کے ایک رکن فرسو سلام کا کہنا ہے”دیہاتیوں کا ایقان ہے کہ ان کے مسائل کوحل کرنا بھگوانوں کی ذمہ داری ہے اور وہ اس میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دیہاتی اپنے بھگوانوں کو مواخدہ کے لئے یہاں لے آتے ہیں۔یہ سماعت سال میں ایک مرتبہ کی جاتی ہے۔“
دیہی قائدین اس مقدس عدالت میں وکیل کے طور پر پیش ہوتے ہیں اور مرغیاں گواہوں کے طور پر۔ ایک مرغی کو یہاں لایا جاتا ہے اور بعد سماعت شہادت کے اختتام کی علامت کے طور پر اس کو آزاد کردیا جاتا ہے۔ ایک دیہی قائد کی جانب سے سزا سنائی جاتی ہے جس کے بارے میں یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ دیوی کی ہدایات کی تعمیل کرتا ہے۔سزا پانے والے خداؤں کو مندر سے ہٹادیا جاتاہے اور بسا اوقات درختوں کے نیچے رکھ دئیے جاتے ہیں جو اس بات کی علامت سمجھے جاتے ہیں کہ انہیں قید کیا گیا ہے۔ مورتیوں پر چڑھائے گئے طلائی و نقروی سجاوٹیں نکال دی جاتی ہیں۔ ان قیمتی چڑھاؤں کا سرقہ نہیں ہوتا چونکہ قبائیلیوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنا مقدس انصاف کو دعوت دینا ہوتا ہے۔کسی بھی عدالت کی طرح یہاں ایک رجسٹر بھی رکھا جاتا ہے جس میں ہر مقدمہ کی تفصیلات درج ہوتی ہیں جن میں دیوتاؤں کی تعداد‘ ان کے مبینہ جرائم کی نوعیت‘ گواہ اور قطعی فیصلہ سب کی تفصیلات لکھی جاتی ہیں۔باقاعدہ عدالتی نظام میں زیریں عدالت کے فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کی جاسکتی ہے مگر بستر کی مقدس عدالت میں مرافعہ بھنگارم کی دیوی کے روبرو پیش کرنا ہوتا ہے جو سزاء سناتی ہے۔ اگر جلا وطن خدامعافی کے خواستگار ہوتے اور دیوی اس سے قائل ہوجاتی ہے تو ان کی جلاوطنی معطل کردی جاتی ہے اور وہ مندر میں واپس آسکتے ہیں۔