کل جماعتی پلاٹ فام کے اجلاس میں فرقہ ورانہ ماحول کی روک تھام کا جائزہ
حیدرآباد۔20 /ستمبر (نیوز ڈین) کل جماعتی پلاٹ فام پر علماء و دانشوران کی ایک اہم نشست فیض گاہ حیدرآباد میں جمعہ کو منعقد ہوئی، جس میں ملک و ملت کے اہم مسائل پر غور و خوض ہوا اور ملی و ملکی اہم مسائل پر عملی جدوجہد کا جائزہ لیا گیا۔بہار کے نوادہ ضلع میں بدھ کی شام دلت بستی پر زمینی تنازعہ کے بہانہ حملہ،جس میں پولیس کے مطابق 21 گھر اور دیگر ذرائع کے مطابق تقریباً 80 گھروں کو آگ لگا دی گئی، کل جماعتی پلاٹ فام کی اس نشست میں علماء و دانشوران کی جانب سے دلتوں کے خلاف اس حملہ کی سخت مذمت کی گئی۔ علماء کرام نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دلتوں بلکہ کسی کے ساتھ بھی ایسے ظلم قطعی طور پر ناقابل برداشت ہیں،حکومت اور لا اینڈ آرڈ کے ذمہ د راوں کی لاپرواہی ایسے واقعات کی ذمہ دار ہوتی ہے، دلتوں، کمزور طبقات اور اقلیتوں پر ہونے والے ایسے مظالم کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
علماء کرام نے کہا کہ ریاست تلنگانہ، جینور ضلع آصف آباد میں پیش آیا واقعہ بھی اس سے بدتر ظلم ہے، یہ فیاکٹس سامنے آ چکے ہیں کہ جینور میں فسادات فرقہ پرستوں اور کرایہ کے غنڈوں کی جانب سے با قاعدہ منصوبہ بند طور پر ہوئے ہیں، ۹۵ اور ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک سو چالیں ۱۴۰ دکانوں کو جلایا گیا،جس میں سے بیشتر جلا کر خاکستر کردئیے گئے، بیسیوں گاڑیوں کو جلا دیا گیا، پولیس اسٹیشن کے قریب کے مکانات کو جلایا گیا، سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑا گیا، اور منصوبہ بند طریقوں سے پٹرول باٹلس کو تیار کرکے پورے بازار کو اور بڑی تعداد میں مکانات کو جلایا گیا۔ اس حادثہ میں مسلمانوں کے ساتھ دوہرا معیار برتا جا رہا ہے، یہاں بھی ایک قبائلی خاتون کے ساتھ زیادتی کو بہانہ بنا کر بے قصور مسلمانوں کی پوری بستی اور بازار کو ہدف بنایا گیا، مسجد اور قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ بیانیہ صاف واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فساد کسی بھی طرح قبائلی کے ساتھ زیادتی کا رد عمل نہیں ہے، بلکہ کچھ مفاد پرست سیاست دانوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے، اور اس سازش کا تسلسل جاری ہے، حتی کہ ان فسادات کی روک تھام میں پولس کا کردار بھی مشکوک رہا ہے۔
کچھ سیاست دان قبائلی کے ساتھ زیادتی کے تأثر کا منفی بیانیہ چلا کر فسادات کے بعد بھی بے قصور اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف سیاسی مفادات کے لئے میدان میں سرگرم ہیں، جبکہ انصاف پسندوں نے صاف واضح کیا ہے کہ قبائلی کے ساتھ ایک فرد کی زیادتی کے نتیجہ میں اس پر قانونی کارروائی ہو چکی ہے، اور مزید عدالت ضابطہ کے مطابق کارروائی کرے گی،سماج کا ہر شہری جس میں ہر مسلمان بھی شامل ہے جرم کے خلاف کارروائی کے حق میں ہے، لیکن ایک انفرادی واقعہ کو بہانہ بنا کر سینکڑوں کی تعداد میں شر پسندوں کو جمع کرکے مسلم بستی پر حملہ سراسر گھناؤنی سازش اور غیر قانونی حرکت ہے، لیکن اس معاملہ میں روایت کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ دوہرا معیار اپنایا جارہا ہے، جن سیاسی لیڈروں نے یہ سازش کی وہ تو اس کو قبائلی رنگ دے کر ہٹ دھرمی کا ثبوت دے ہی رہے ہیں، حکومت بھی جینور کے مسلمانوں کے خلاف فسادات میں انصاف اور قانون کی بالا دستی کے لئے انتہائی لا پرواہی کا ثبوت دے رہی ہے۔راہول گاندھی اور ان جیسے دیگر بڑے سیکولر لیڈروں کو بھی جاتی واد اور فرقہ وارانہ فسادات میں دوہرے معیار سے گریز کرکے ملک کے ہر ظلم کے معاملہ میں یکساں آواز اٹھانا چاہئے۔
حکومت کو بار بار متوجہ کرایا جا رہا ہے کہ جینور پہلے سے ہی حساس علاقہ تھا، یہاں فرقہ ورانہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے اس کے لئے پولیس نے کوئی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا، اب فسادات ہو چکے ہیں، اشرار کے خلاف کارروائی میں بھی لاپروائی برتی جارہی ہے، اور جو لوگ منفی سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں ان سے نپٹنے کے لئے صحیح معیار نہیں اپنا رہی ہے، فسادات سے متأثرہ علاقہ میں بند اور ریالیوں کی اجازت دینا خود اس دوہرے معیار کا واضح ثبوت ہے، بند کے دوران اگر کوئی اور ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے ذمہ دار عہدیداروں کو نہ صرف معطل کیا جائے بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، اور جینور میں خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرنے کے لئے حکومت اور چیف منسٹر مؤثر کارروائی کریں۔
اس اجلاس نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ دوہرایا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کا معاملہ صرف جینور کانہیں ہے، بلکہ ریاست میں مختلف جگہوں پر فرقہ وارانہ ماحول کا بڑھتا ہوا رجحان تشویشناک بن گیا ہے، حکومت کو اس معاملہ میں سخت رویہ کا صاف اظہار کرنا ہوگا، اور ماضی کی طے شدہ پالیسیوں کے مطابق حکومت اور پولیس کو تمام حساس علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کو سختی سے نافذ کرنا چاہئے، مسلمانوں کے خلاف دوہرے معیار سے بچنا چاہئے، اورحکومت کو صاف اعلان کرنا چاہئے کہ فسادات کی روک تھام میں کوتاہی میں لا اینڈ آرڈر کے عہدیداروں کو ذمہ مانا جائے گا، ان کی نااہلی کو نہ ان کے پروموشن میں رکاوٹ کا ذریعہ مانا جائے گا بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی۔
وہ سیاسی لیڈر جو جینور کے حادثہ کو قبائلی بمقابلہ مسلمان کا رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں انہیں بھی جاننا چاہئے کہ عوام ان کی منفی سیاست کو صاف سمجھ رہی ہے، اورآئندہ انتخابات میں اس سازشی ذہن کو عوام ہر گز معاف نہیں کرے گی۔
کل جماعتی پلاٹ فام سے اب تک پولیس اعلی عہدیدار اور حکومت میں اس مسئلہ پر متعدد پہلووں سے نمائندگی کی گئی ہے، جینور بند کے اعلان پر بھی آصف آباد کلکٹر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فسادات سے متأثر علاقہ میں بند اور ریالیوں کی اجازت قطعی نہیں دی جانی چاہئے، ایسے بند میں ہونے وائی بیان بازی یا کوئی شرارت سے ماحول مزید متأثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ قبائیلیوں میں بھی معتدل لوگوں سے اہل علم کی ملاقاتیں جاری ہیں، مختلف طبقات کی باہمی ملاقاتیں اور مشترکہ انصاف کی آواز بلند کرنے پر مزید کام کی کوششیں کی جارہی ہیں، حکومت سے بھی اپیل ہیکہ وہ منفی سیاست کرنے والوں کے مقابلہ میں حقائق سامنے لانے کے اسباب اختیار کرے، تاکہ فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والوں کی سازش ناکام ہو اور مختلف طبقات کے درمیان باہمی محبت اور ایک دوسرے کے احترام کیلئے سنجیدہ مذاکرات کی راہیں ہموار ہوں۔
اس نشست میں وقف کے مسئلہ میں بھی غور وخوض کیا گیا، ملک کی بڑی جماعتیں اور شخصیات اس مسئلہ میں جو بھی لائحہ عمل بنائیں کل جماعتی پلاٹ فام پر تشکیل کی گئی ایک کمیٹی اس موضوع پر مشترکہ جدوجہد کے فروغ پر کام کررہی ہے، نیز مسلمان میں شعور بیدار کرنے پر محنت کررہی ہے کہ علماء کرام اور متعلقہ تنظیموں کی جانب سے جو لائحہ عمل سامنے آئے مسلمان اس میں ترجیحاً حصہ لیں اور اوقاف کے تحفظ کیلئے مؤثر جدوجہد کریں۔
ملکی اور ملی اجتماعی مسائل پر مشترکہ جدوجہد کے لئے کل جماعتی پلاٹ فام کی ایک اہم نشست ۳۰/ ستمبر بروز پیر بمقام فیض گاہ، آصف نگر حیدرآباد میں رکھی گئی ہے، جس میں ملک ملت سے متعلق موجودہ اہم مسائل پر اجتماعی غور و خوض ہوگا، پوری ریاست سے اہم شخصیات کی شرکت ہوگی، اصحاب فکر سے اس میں شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔
0