0

وقف بورڈ سے نکاح نامہ کی اجرائی ‘ کرناٹک ہائی کورٹ کا عبوری امتناع

وقف بورڈ سے نکاح نامہ کی اجرائی پر کرناٹک ہائی کورٹ کا عبوری امتناع عائد کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کو مسلم جوڑوں کو نکاح نامہ جاری کرنے کی اجازت دینے والے سرکاریحکم نامے پر عبوریحکمِ امتناع جاری کیا۔کرناٹک ہائی کورٹ نے 30 اگست 2023 کو جاری کردہ ریاستی جی اوپر حکمِ امتناع جاری کر دیا جس کے تحت کرناٹک اسٹیٹ وقف بورڈ اور اس کے ضلعی افسران کو مسلم جوڑوں کو نکاح نامہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔چیف جسٹس این وی انجریا اور جسٹس کے وی اروند پر مشتمل بنچ نے وقف بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 دسمبر، جو اگلی سماعت کی تاریخ ہے تک جواب طلب کر لیا۔
عدالت العالیہ نے کہا’’یہ حکم نامہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وقف ایکٹ کی دفعہ 32 کو بغور پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی بھی طور پر وقف بورڈ یا اس کے افسران کو نکاح نامہ جاری کرنے کے اختیارات تفویض کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ نکاح نامہ جاری کرنا نہ تو وقف بورڈ کے بہتر انتظامی امور میں شامل ہے اور نہ ہی اس کی انتظامی کارروائیوں کا کوئی ضمنی معاملہ ہے‘‘
ہائی کورٹ نے یہ عبوری حکم عوامی مفاد کی درخواست سماعت کے دوران جاری کیا جسے عالم پاشا نے دائر کیا تھا۔ اس درخواست میں اقلیت، وقف اور حج کے ریاستی محکمہ کے انڈر سیکرٹری کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس نے کرناٹک بھر کے ضلعی وقف بورڈز کو نکاح نامہ جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل قاضی، جو نکاح کے دوران قرآن کی آیات پڑھتے ہیں کو قاضی ایکٹ 1988 کے تحت نکاح نامہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ تاہم، یہ ایکٹ 2013 میں منسوخ کر دیا گیا اور اس کے بعد ریاست نے مذکورہ اعلامیہ جاری کیا جس میں وقف بورڈ کو نکاح نامہ جاری کرنے کی اجازت دی گئی۔درخواست میں کہا گیا کہ وقف ایکٹ صرف منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں سے متعلق ہے اور اس میں ایسی کوئی دفعہ موجود نہیں جو اس کے افسران کو نکاح نامہ جاری کرنے یا اس سے متعلق معاملات کے اختیارات دیتی ہو۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی’’ایک نکاح صرف ضلعی یا ریاستی رجسٹرار آف میرجز کے پاس ہندو میرج ایکٹ 1955 یا اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ریاستی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وہ مسلمان جو نکاح کے فوراً بعد بیرون ملک سفر کرتے ہیں، انہیں نکاح نامہ حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس حکم نامے کو ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔عدالت نے کہا کہ ریاست ایسے اختیارات نہیں دے سکتی جب وقف ایکٹ خود ایسے کسی اختیار کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید کہا کہ وقف ایکٹ اپنے مخصوص مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کی دفعات انتظامی معاملات اور وقف جائیدادوں کے انتظام سے متعلق ہیں۔ اس ایکٹ میں وقف افسران کو نکاح نامہ جاری کرنے کے کوئی اختیارات نہیں دیے گئے۔ عدالت العالیہ نے اپنے حکم نامہ میں کہا’’یہ دلیل کہ نکاح نامہ کے حصول میں مشکلات کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی کے افراد کو وقف افسران کے ذریعے نکاح نامے فراہم کیے جائیں، وقف افسران کو ایسے اختیارات تفویض کرنے کو جائز قرار دینے کی بنیاد نہیں بن سکتی جب وقف ایکٹ 1995 کی کسی بھی دفعہ میں ایسے اختیارات کی اجازت نہیں ملتی۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں