وقف بل پر پارلیمانی کمیٹی کے صدر کے رویہ سے اپوزیشن ایم پیز نالاں
اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ نے وقف ترمیمی بل پر گفتگو کے لئے مشترکہ پارلیمانی اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے اور اسپیکر کو خط لکھ کر کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ کمیٹی جانبدار ہے اور انہوں نے اسپیکر سے وقت مانگا ہے تاکہ اس مسئلے پر بات کی جا سکے۔
اپوزیشن اراکین کا کہنا ہے کہ کرناٹک اسٹیٹ اقلیتی کمیشن اور کرناٹک اقلیتی ترقیاتی کارپوریشن کے سابق چیئرمین انور منیپّاڈی کی جانب سے بل پر کی جانے والی پیشکش اصل بل سے متعلق نہیں تھی۔ ان کا الزام ہے کہ مسٹر انور صرف اس موقع کو کرناٹک حکومت اور کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔
شیو سینا (یو بی ٹی)کے رکن پارلیمنٹ اروند ساونت نے کہا ’’ہم نے بائیکاٹ اس لیے کیا ہے کہ کمیٹی اپنے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کام نہیں کر رہی ہے۔ اخلاقیات اور اصول کے لحاظ سے، وہ غلط ہیں۔‘‘
مسٹر ساونت کے علاوہ، کانگریس کے گورو گوگوئی اور عمران مسعود، اے آئی ایم آئی ایم کےبیرسٹر اسد الدین اویسی، سماج وادی پارٹی کے محب اللہ، ڈی ایم کے کے اے راجا، اور عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ کو اجلاس سے باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ مسٹر پال کی صدارت میں اجلاس جاری رہا جبکہ اپوزیشن کے اراکین اپنی اگلی حکمت عملی پر غور کرنے کے لئے ملے۔
وقف ترمیمی بل 8 اگست کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اور اپوزیشن کے شدید اعتراضات کے باوجود اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا۔ کمیٹی کو اگلے پارلیمانی سیشن کے پہلے ہفتے کے اختتام تک اپنی رپورٹ لوک سبھا میں جمع کرانی ہے اور اب وہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
وقف ترمیمی بل 2024 میں ایسی ترمیمات رکھی گئی ہیں جس سے نہ صرف نظام وقف کمزور پڑجائےگا بلکہ اوقاف سے متعلق ادارے بھی کمزور اور بےفیض ہوکر رہ جائیں گے۔ ان ترمیمات میں وقف بورڈس اور سنٹرل وقف کونسل میں دو غیر مسلم ارکان کی شمولیت رکھی گئی ہے ۔ جائیداد وقف کرنے کے لئے واقف کا پانچ برسوں کی مدت کے لئے باعمل مسلمان ہونا ضروری ہے ‘ یعنی واقف کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پانچ برسوں سے زائد مدت سے مسلمان ہے‘ اس طرح ایک نو مسلم کو اپنی جائیداد کو وقف کرنے کے لئے پانچ برسوں تک انتظار کرنا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ وقف کی جانے والی جائیداد واقف کی زر خرید ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی اپنی موروثی جائیداد وقف نہیں کرپائےگا۔ ان ترمیمات میں ضلع کلکٹر کو بہت سے امور میں مجاز افسر بنادیا گیا ہے جب کہ اوقافی جائیدادوں کے تنازعہ کے بیشتر کیسس میںضلع کلکٹر ہی وقف بورڈ کے مقابل ہوتا ہے۔ فریق کو ہی منصف بنادینے سے فطری عدل کا تقاضا کی تکمیل نہیں ہوتی۔