ایک-ملک-ایک-الیکشن-سے-علاقائی-پارٹیاں-کمزور-ہوجائیں-گی
صدر مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے چہارشنبہ کو کہا کہ وہ ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کی مسلسل مخالفت کرتے آرہے ہیں چونکہ یہ نظریہ وفاقیت کو تباہ کردے گا اور جمہوریت پر سمجھوتہ کرلے گا۔ سابق صدرجمہوریہ ہندرام ناتھ کویند کے زیر قیادت پانل کی ’ایک ملک ایک الیکشن‘ پر سفارشات کی مودی کابینہ کی منظوری کے کچھ ہی دیر بعد رکن لوک سبھا حیدرآباد نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ متعدد اور وقفہ واری انتخابات سے جمہوری احتساب میں بہتری آتی ہے۔بعدازاں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ ایک ملک ایک الیکشن کی بات نریندرمودی 2019 سے کررہے ہیں۔نریندر مودی جب 2018 ء میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اس کے بعد پارلیمنٹ میں تمام پارٹیوں کے ارکان لوک سبھا وا رکان راجیہ سبھا کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں ان کی پارٹی اور آنجہانی سیتارام یچوری کی پارٹی نے مخالفت کی تھی۔ اس نظریہ کے پس پردہ نریندرمودی کا اصل گیم پلان یہ ہے کہ قومی پارٹیاں برقرار رہیں اور علاقائی پارٹیاں ختم کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ قومی انتخابات ہونے کی صورت میں انتخابی موضوعات قومی نوعیت کے ہوں گے اور اسمبلی انتخابات میں علاقائی موضوعات کو فوقیت حاصل ہوگی۔ مودی نہیں چاہتے کہ علاقائی مسائل کبھی انتخابی موضوع ہی بننے نہ پائے۔بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ وقفہ وقفہ سے انتخابات کے منعقد ہونے میں ملک کے غریب لوگوں کا فائدہ مضمرہے۔پانچ برس میں ایک مرتبہ ہی انتخابات کروائیں گے تو عوام کی مول تول کی قوت گھٹ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وقفہ وقفہ سے انتخابات کی صورت میں ترقیاتی پروجیکٹس اور فلاحی اسکیمات پر عمل آوری میں سرعت آئے گی۔ صدر مجلس نے استفسار کیا کہ اگر ایک حکومت اپنی میعاد سے قبل زوال پذیر ہوجائے تواس صورت میں کیا کیا جائے گا؟انہوں نے بتایا کہ ہماری پارٹی نے لاء کمیشن کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس تجویز کی مخالفت کی تھی اور کہا کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ ایک غیر کارآمد حل ہے چونکہ اس سے وفاقیت تباہ اور جمہوریت پر سمجھوتہ ہوجائے گاجو کہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں بتایاجارہا ہے کہ اس کے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت کا یہ استدلال کہ موجودہ طریقہ کارمیں سرکاری خزانہ پر مالی بوجھ بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اول تو یہ ہے کہ مثالی ضابطہئ اخلاق پالیسی سازی اور نوعیت کے اعتبار سے معمول ہے تو اس کو روکتا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انتخابی جمہوریت‘ ہمارے بھارت کے دستور کا ستون ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی توازن‘ انتظامی آسانیاں وغیرہ کو بہانے بناکر مودی حکومت چاہتی ہے کہ سارے ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کروائے جائیں۔بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اگر دستوری ضرورتوں کا انحصار مالیاتی و انتظامی لحاظ پر ہوگا تو اس کے لغو نتائج برآمد ہوں گے۔اگر ان خطوط پر آگے بڑھیں گے تو کل کو یہ کہا جائے گا کہ سیول سرویسس‘ پولیس اور عدلیہ کام نہیں کررہے ہیں اس لئے انہیں نکال دیا جائے۔
0