سپریم کورٹ سےیو پی مدرسہ ایجوکیشن قانون کی آئینی حیثیت برقرار۔سپریم کورٹ نے ’قانون اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن۔ 2004‘کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا اور الہ آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں اس قانون کو مسترد کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غلطی کی تھی جب اس نے اس بنیاد پر قانون کو منسوخ کیا کہ یہ سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کسی قانون کو صرف اس صورت میں منسوخ کیا جا سکتا ہے جب وہ آئین کے حصہ سوم کے تحت بنیادی حقوق یا قانون سازی کے اختیار کے ضوابط کی خلاف ورزی کرے۔ ’آئینی حیثیت کو چالینج نہیں کیا جا سکتا صرف اس بنیاد پر کہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اگر سیکولرزم کے اصولوں کی خلاف ورزی کا دعویٰ کیا جائے تو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ قانون آئین کی ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے جو سیکولرزم سے متعلق ہیں۔”تاہم، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جہاں تک یہ قانون اعلیٰ تعلیم، مثلاً فاضل اور کامل ڈگریوں کو منظم کرتا ہے، وہ یو جی سی قانون کے ساتھ متصادم ہے، اور اس حد تک غیر آئینی ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پردیوالا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی جس میں ’اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن قانون۔ 2004 ‘کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
فیصلے کے اہم نکات
ا مدرسہ قانون بورڈ کے تحت تسلیم شدہ مدارس میں تعلیمی معیار کو منظم کرتا ہے۔
ب مدرسہ قانون ریاست کی اس مثبت ذمہ داری کے مطابق ہے کہ طلبا کو اس معیار تک پہنچایا جائے جو انہیں معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرنے اور روزگار حاصل کرنے کے قابل بنائے۔
ج آرٹیکل 21A اور حق تعلیم قانون کو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کے حق کے مطابق پڑھا جانا چاہیے۔ بورڈ ریاستی حکومت کی منظوری سے ایسے ضوابط بنا سکتا ہے جن سے اقلیتی تعلیمی ادارے سیکولر تعلیم فراہم کریں۔
د. مدرسہ ایکٹ ریاستی مقننہ کے قانون سازی کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اسے فہرست 3 کے اندراج 25 سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، مدرسہ ایکٹ کی وہ دفعات جو اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں، جیسے کہ’فاضل‘ اور ’کامل‘ کو منظم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، غیر آئینی ہیں کیونکہ یہ فہرست 1 کے اندراج 66 کے تحت نافذ کیے گئے یو جی سی ایکٹ کے ساتھ متصادم ہیں۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مدرسہ قانون کے دفعات معقول ہیں کیونکہ یہ طلبا کی علمی ترقی اور امتحانات کے لئے تیار کرنے کا مقصد پورا کرتے ہیں۔ یہ قانون اتر پردیش میں اقلیتوں کے مفادات کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ہائی کورٹ نے غلطی کی کہ مدرسہ قانون کو آرٹیکل 21A کی خلاف ورزی کے طور پر قرار دیا کیونکہ (1)حق تعلیم قانون اقلیتی تعلیمی اداروں پر لاگو نہیں ہوتا، (2) مذہبی اقلیتوں کو مدرسے قائم کرنے اور مذہبی و سیکولر تعلیم دینے کا حق آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت محفوظ ہے۔عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ مذہبی تعلیم دینا مدرسوں کا بنیادی مقصد نہیں بلکہ تعلیم دینا ہے۔
سپریم کورٹ میں درخواستیں
انجمن قداری، مینیجرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ (یو پی)، آل انڈیا ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ (نئی دہلی)، مینیجر ایسوسی ایشن عربی مدرسہ نئی بازار اور ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کانپور کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
دو روزہ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ ہائی کورٹ نے یو پی مدرسہ قانون کو غلط طور پر مذہبی تعلیمات دینے کا قانون سمجھا ہے، جبکہ اس قانون کا اصل مقصد مسلم بچوں کی تعلیم کے لئے ضوابط کی ایک اسکیم فراہم کرنا ہے۔دوسری طرف، اس قانون کے مخالفین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن (این سی پی سی آر) نے زور دیا کہ مدرسہ تعلیم آئین کے آرٹیکل 21A کے تحت معیاری تعلیم کے وعدے کو نظرانداز کرتی ہے۔ اگرچہ ہر کسی کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہے، مگر اسے مرکزی دھارے کی تعلیم کا متبادل نہیں سمجھا جا سکتا۔
اپریل میں، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری حکم نامہ جاری کیا تھا اور ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ہائی کورٹ نے اس قانون کو غلط سمجھا ہے۔ہائی کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟قانون کو ’ورائے اختیار‘ قرار دیتے ہوئے جسٹس ویویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی پر مشتمل بینچ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ایک ایسی اسکیم تشکیل دے تاکہ اس وقت مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو روایتی تعلیمی نظام میں شامل کیا جا سکے۔
ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ انشومن سنگھ راٹھور کی طرف سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں آیا تھا، جس میں یو پی مدرسہ بورڈ کے اختیار پر چالینج کیا گیا تھا اور اقلیتی بہبود کے محکمے کے ذریعے مدرسہ کے انتظامات پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
درخواست گزاروں کی نمائندگی:درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا میں سینئر ایڈووکیٹس ڈاکٹر اے ایم سنگھوی، مسٹر مکل روہتگی، مسٹر پی ایس پٹوالیہ، مسٹر پی چدمبرم، ڈاکٹر مینکا گروسوامی، مسٹر سلمان خورشید، مسٹر ایم آر شمشاد شامل تھے، جن کی معاونت میں روہت امیت ستھالیکر، سنکلپ نرائن، ایم اے اوصاف، ایچ پی ساہی، یش جوہری، اور اتکرش پرتاپ نے بطور وکیل شامل ہوئے۔
0