0

مسجد کے اندر جے شری رام کے نعرے لگانےسے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے: کرناٹک ہائی کورٹ

کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا کہ مسجد کے اندر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے سے ’کسی طبقے کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوئے‘ جبکہ دو افراد کے خلاف مذہبی عقائد کی توہین کے الزامات پر مبنی فوجداری کارروائیوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ پچھلے ماہ جاری کردہ فیصلے میں جسٹس ایم ناگا پرسنا نے دکشن کنڑا ضلع کے ساکن کیرتھن کمار اور سچن کمار کے خلاف فوجداری کارروائیوں کو منسوخ کر دیا۔ دونوں افراد کے خلاف مقامی پولیس نیتعزیرات ہند کی مختلف دفعات بشمول دفعہ 295A، 447، اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ شکایت کے مطابق، دونوں افراد نے گزشتہ سال ستمبر میں ایک رات مقامی مسجد میں داخل ہو کر ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا”’دفعہ 295A جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی اعمال سے متعلق ہے جو کسی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرتے ہیں۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی ‘جے شری رام’ کا نعرہ لگاتا ہے تو اس سے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کیسے مجروح ہو سکتے ہیں۔ جب کہ خود شکایت کنندہ نے کہا کہ اس علاقے میں ہندو اور مسلمان ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں، تو اس واقعے سے کوئی بدمزگی پیدا ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔“درخواست گزار کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ مسجد ایک عوامی جگہ ہے، اس لیے اس صورت میں فوجداری تجاوزات کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانا آئی پی سی کی دفعہ 295A کے تحت کسی جرم کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔تاہم، ریاستی حکومت نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ اس معاملے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالت نے اس کے باوجود یہ فیصلہ دیا کہ اس معاملے میں مبینہ جرم کا عوامی نظم و ضبط پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کا مؤقف ہے کہ ہر عمل دفعہ 295A کے تحت جرم نہیں بنتا۔ وہ اعمال جن کا امن عامہ پر کوئی اثر نہ ہو یا عوامی نظم و ضبط کی خرابی کا باعث نہ ہوں، وہ دفعہ 295A کے تحت جرم نہیں بن سکتے۔ کوئی ایسا عنصر نہیں ملا جو ان الزامات کو ثابت کرے، اس لیے درخواست گزاروں کے خلاف مزید کارروائیوں کی اجازت دینا قانون کے غلط استعمال اور انصاف کی خلاف ورزی ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں